Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر

فیاض صاحب جن کا قرض اس حد تک بڑھ گیا تھا کہ وہ عابدی کے بزنس پارٹنر سے کسی عام ورکر کی طرح حیثیت والے ہو گئے تھے عابدی نے ان کو ان کی حیثیت کا کبھی نہ جتایا تھا مگر وہ باضمیر اور خود دار شخص تھے۔ اپنی گرتی پوزیشن دیکھتے ہوئے فیاض ازخود ہی مالکانہ حقوق سے دستبردار ہو گئے تھے۔ طغرل کو جب ان کی مالی حالت سے واقفیت ہوئی تو اس نے کچھ اس خلوص و مروت سے ان کو سمجھایا کہ بہت ردو کد کے بعد وہ بالآخر اس کے خلوص کے آگے ہار مان گئے۔

طغرل نے بہت خاموشی سے نہ صرف ان کا قرضہ واپس کیا بلکہ ان کے نئے شروع ہونے والے پروجیکٹ میں بھی مالی معاونت کی تھی۔ پریشانیوں و فکروں نے ان کو بدمزاج اور چڑچڑا سا کر دیا تھا۔ حد تو آدم بے زاری کی یہ تھی کہ وہ اماں جان کو بھی کھڑے کھڑے ہی سلام کرکے چلے جاتے تھے۔


قرض کا بوجھ غائب ہوا تو معاملات زندگی پھر سے اپنی ڈگر پر پلٹ آئے اور ان کی خوش مزاجی و معمولات لوٹ آئے تھے۔

وہ صباحت کو اماں کے کمرے میں چائے لانے کا کہہ کر وہاں آ گئے تھے۔
”شکر ہے آج تم کو بھی فرصت مل گئی ماں کے پاس بیٹھنے کی وگرنہ میں تو خود کو گھر کے کونے میں پڑا کوئی ٹوٹا پھوٹا بے مصرف سامان سمجھنے لگی تھی۔“ ان کے دل کا شکوہ لبوں پر آ ہی گیا تھا۔
”آپ میں تو ہماری جان ہے اماں جان! آپ تو اس گھر کا سب سے مضبوط ستون ہیں ،کاٹھ کباڑ تو ہم لوگ ہیں۔
“ وہ اب بھرے لہجے میں بولے۔
”خیر چھوڑو ان باتوں کو یہ بتاؤ ،تم نے طغرل کو کیوں کہا ،میرا مطلب ہے پری سے اس کا رشتہ جوڑنے کی بات کیوں کی؟“ وہ قریب بیٹھے فیاض سے گویا ہوئیں۔
”اماں جان! میری یہ خواہش کچھ عرصے قبل ہی بیدار ہوئی ہے میں نے اپنی بیٹی کے ساتھ بے حد نا انصافی کی ہے ہمیشہ سے غلط فیصلے خود کئے اور نفرت کی پارس سے ،میں پری کو اب خوش دیکھنا چاہتا ہوں۔
“ وہ سر جھکائے ندامت بھرے لہجے میں کہہ رہے تھے۔
”تمہارا کیا خیال ہے طغرل پری کو خوش رکھ سکے گا؟“
”آپ کو ایسا محسوس نہیں ہوتا ہے؟“ وہ چونک کر بولے۔
”تم نے ایسا سوچ بھی کیوں لیا فیاض! اپنی زندگی برباد کرنے کے بعد تم اپنی بیٹی کی زندگی بھی برباد کرنے کی خواہش رزکھتے ہو؟ جو غلطی تم نے کی تھی ویسی ہی غلطی طغرل سے بھی چاہتے ہو؟“
”خدا نہ کرے جو پری کی زندگی پر دکھ کا ہلکا سا بھی سایہ پڑے ،اللہ میری بچی کی زندگی ہمیشہ مسرتوں سے روشن رکھے اس کو دکھوں اور محرومیوں کے سوا زندگی نے دیا ہی کیا ہے۔
“ بیٹی کے ذکر پر وہ آبدیدہ سے ہو گئے تھے اپنی تمام زیادتیاں ان کو یاد تھیں اور جن پر دل شرمندگی کے بوجھے تلے دبا ہوا تھا۔
”تم سے زیادہ میں اس کو عزیز رکھتی ہوں لیکن تمہاری طرح بند آنکھوں سے فیصلہ نہیں کر سکتی ہوں بیٹا! مرد کی محبت پانی کے بلبلے کی مانند ہوتی ہے پل میں ابھری اور پل میں غائب بھی ہو جاتی ہے۔“
”آپ فکر مت کریں اماں جان یہ فیصلہ میں نے مثنیٰ اور پری کی مرضی پر چھوڑ دیا ہے اب دیکھتے ہیں تقدیر کیا فیصلہ کرتی ہے۔
”یہ جانتے ہوئے بھی مذنہ پری کو بہو بنانا نہیں چاہتی؟“
”جی میں جانتا ہوں مذنہ بھابی کی خواہش کو لیکن ضروری نہیں ہے ہر بار ان کی ہی بات مانی جائے ،یہاں طغرل کی زندگی کا معاملہ ہے اور اس معاملے کو وہ خود سلجھائے گا وہ کہہ چکا ہے۔“
”اس معاملے میں تم خود غرضی نہیں دکھا رہے ہو فیاض! میں تم سے اس طرح کے فیصلے کی ہرگز توقع نہیں کرتی تھی۔
“ ان کے لہجے میں خاصی بے یقینی و بے اعتباری تھی۔
”آپ ہی بتایئے اماں جان خاندان میں کوئی بھی میری بیٹی کو بہو بنانے کیلئے تیار نہیں ہے طلاق میرے اور مثنیٰ کے درمیان ہوئی تھی پھر ایسے فیصلوں کے بعد سزا بچے کیوں بھگتیں؟ ارے لوگ یہ کیوں نہیں سوچتے ایسے بچوں کے حقوق والدین پہلے ہی سلب کر لیتے ہیں۔ ایسے بچے بہت ہمدردی ،پیار محبت کے قابل ہوتے ہیں۔
”چلو ٹھیک ہے مثنیٰ اور پری کو فیصلے دے کر تم نے اچھا کیا ہے میں فراز کو فون کروں گی اس کے آگے ساری باتیں رکھوں گی اس کی بیماری کی وجہ سے ہر بات سے اس کو دور رکھا گیا ہے۔“
”جی آپ بہتر سوچ رہی ہیں۔“ وہ متفق ہو کر گویا ہوئے۔
”عائزہ کو بھی معاف کر دو فیاض! بیٹیوں سے زیادہ عرصہ تک ناراض رہنا ان کے دلوں کو توڑ دیتا ہے۔
”آپ نے معلوم نہیں کیا وہ یہاں کیوں رہ رہی ہے؟“
”تم خود کیوں نہیں پوچھ لیتے؟ بلکہ تم کو تو اپنے داماد سے پوچھنا چاہئے وہ کیوں عائزہ کو لے کر نہیں جا رہا ،کیا وجہ ہے اس کو میکے چھوڑنے کی؟“ اماں نے ان کے مزاج کا لوہا نرم دیکھ کر چوٹ ماری۔
”یہ سب صباحت کو خوب معلوم ہوگا آپ ان سے معلوم کریں۔“ عائزہ سے خفگی ابھی بھی برقرار تھی۔
”صباحت کسی اور دنیا کی باسی ہے بیٹا! وہ ان معاملات میں دلچسپی کہاں لیتی ہے اس کی بلا سے کچھ بھی ہو۔“
”کیا کہہ سکتا ہوں اماں! صباحت آپ ہی کا انتخاب ہے صباحت کی خاطر ہی آپ نے مثنیٰ کو ٹھوکر ماری تھی۔“ وہ سرد آہ بھر کر گویا ہوئے۔
”ٹھیک کہہ رہے ہو یہ پچھتاوا اب زندگی کے ساتھ ہی ختم ہو گا۔“
”اوہ! میرا مطلب آپ کو رنجیدہ کرنا ہرگز نہ تھا۔
“ انہوں نے ان کا ہاتھ پکڑ کر آنکھوں سے لگا لیا تھا۔ چائے لاتی ہوئیں صباحت آخری گفتگو سن کر کھڑی رہ گئی تھیں۔
###
”پری… پری… کال ہے بیٹا!“ مثنیٰ سیل فون پکڑے ڈریسنگ کے سامنے بیٹھی بال برش کرتی پارس کو سیل پکڑاتی ہوئیں گویا ہوئی تھیں اور پھر واپس چلی گئی تھیں۔
”جی…“ دوسری طرف طغرل تھا ،وہ اٹھ کر بیڈ پر آ گئی۔
”کب واپس آؤ گی یار! رئیلی بہت بور ہو رہا ہوں۔
”ابھی تو صرف ایک ہفتہ ہوا ہے مجھے مما کے پاس آئے۔“
”پھر کیا تمہارا ایک صدی بعد آنے کا ارادہ ہے؟“ وہ منہ بنا کر طنزیہ لہجے میں بولا تو وہ بے اختیار ہنس دی۔
”رئیلی تمہاری ہنسی کس قدر کیوٹ ہے ،ذرا پھر سے ہنسنا پلیز…“ اس کے لہجے میں جذبوں کی شدتیں عیاں تھی پری بلش ہو گئی۔
”پلیز ایک بار ہنس کر دکھا دو نہ۔“ وہ پرتجسس تھا۔
”میں خوامخواہ کیسے ہنس سکتی ہوں؟“
”ابھی میں نے کوئی جوک نہیں سنایا تھا جو ہنسی تھیں۔“
”ابھی آپ نے بات ہی ایسی کی تھی میں بے اختیار ہنس پڑی تھی لیکن بار بار تو میں نہیں ہنس سکتی ہوں۔“ اس کے اصرار پر وہ سنجیدہ ہو کر بولی۔
”تم اتنا کنفیوز ہو گئی ہو میں نے ایسا تو کچھ نہیں کہا ،خیر مما سے اجازت لو تو میں پک کرنے آ رہا ہوں کچھ دیر بعد آفس سے وہیں آؤں گا پھر ہم ڈنر باہر کریں گے اوکے؟“ اس کی ترنگ بھاری آواز سے وہ پریشان ہو گئی۔
”ارے کیا ہوا… اب چپ کیوں ہو گئی ہو؟“
”میں کس طرح آپ کے ساتھ جا سکتی ہوں؟“
”کار میں بیٹھ کر اور کس طرح؟“
”میں مذاق نہیں کر رہی؟“
”میں بھی بالکل سیریس ہوں ،کوئی جوک نہیں کر رہا۔“ وہ سنجیدہ لہجے میں گویا ہوا۔
”سوری میں اس طرح آپ کے ساتھ نہیں جاؤں گی۔“
”میرے ساتھ جا رہی ہو تم ،کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا ،تم پر مشن لیتے ہوئے ڈر رہی ہو تو میں خود مثنیٰ آنٹی سے…“
”ایسی بات نہیں ہے میں جانتی ہوں مما پر مشن دے دیں گی۔
“ وہ اس کی بات قطع کرکے الجھے ہوئے انداز میں بولی۔
”پھر کیا بات ہے؟ تم ذرا ذرا سی باتوں پر گھبرانے کیوں لگ جاتی ہو؟ میں نے ایک سادہ سی خواہش ظاہر کی ہے اور تم ہو کہ…“
”ڈنر باہر ہی کیوں کریں گے؟ یہاں آ جائیں سب کے ساتھ…“
”شٹ اپ یو ،تم مجھ پر کبھی اعتبار نہیں کرو گی۔“ وہ غصے میں کہنے لگا ،پری پر اعتماد لہجے میں بولی۔
”میں گھر والوں کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچانا چاہتی ہوں ،پاپا اور دادی کا دل میں کبھی کبھی نہیں دکھا سکتی۔“
”میرا دل تو بنا ہی تمہارے توڑنے کیلئے ہے اس دل کو تم توڑے جاؤ کوئی پروا اور خیال کئے بنا تم ایسا کیوں کرتی ہو میرے ساتھ؟“
”جب تک ہمارے درمیان کوئی شرعی تعلق نہیں ہوگا ،میں آپ کے ساتھ اس طرح باہر نہیں جا سکتی ،یہ میرا فیصلہ ہے۔“ وہ اس کی خفگی بڑھتے دیکھ کر اٹل لہجے میں گویا ہوئی۔
”شرعی تعلق ،اٹس فنٹاسٹک آئیڈیا! میں بارات لے کر آؤں یہی چاہتی ہو نا تم؟“ وہ شوخی سے بولا مگر پری سیل آف کر چکی تھی۔

   1
0 Comments